Add To collaction

لیکھنی ناول -20-Oct-2023

تُو عشق میرا از قلم عائشہ جبین قسط نمبر8

وہ اپنے کالج کے دوست حیدر عبداللہ اور سحرشکے ساتھ ناران کاغان جانے کے لیے تیار تھے ۔ جب صدف کو آتا دیکھ کر حیدر نے سحرش کو اشارے سے ایک طرف ہونا کا بولا بات سنو یہ صدف کو کس نے بلایا ہے علی دی گریٹ نے تم جانتے تو وہ اس کی پھوپھو کی بیٹی اور اس کی بڑی بہن کی نند ہے س کے سامنے بنا سارا پلان تو اس نے بھی ساتھ آنے کا بولا تو علی نے کہا آجاو کمال کرتا ہے علی بھی جانتی ہو یہ ہادیہ سے کتنا جیلس ہوتی ہے اس کو کالج میں بہت مشکل سے براشت کرتا ہوں میں علی نے اتنے لمبے ٹریپ پر اس بلا کو ساتھ کرلیا وہ جل کر بولا اچھا تم خاموش رہنا اب آٸی ہےتو برداشت کرنا پڑے گا اور میں بہت اچھے سے جانتی ہوں اس کو کیا تکلیف ہےہادیہ سے تم بس اپنی زبان قابو میں رکھنا میں سب سنبھال لوں گی سحرش کچھ سوچ کر بولی ہاۓ تم کہو تو میں اپنی زبان کٹوا دو بس مجھے سنبھال لوں اگر تم وہ شوخی سے بولا اس وجہ سے میں زیادہ منہ نہیں لگاتی تمھیں قابل نہیں ہو تم حدسے نکل جاتے ہو چھچورے بندر وہ پاٶں چٹخ کر وہاں سے چلی گی جبکہ حیدر اس کو جاتا دیکھکر دل کھول کر ہنسا تھا نور تم ادھر سدرہ کے اتھ بیٹھو اور تم عبداللہ حیدر ساتھ بیٹھو یار علی سب کو گاڑی میں بیٹھا رہاتھ نہیں میں یہاں سحرش کے ساتھ ٹھیک ہوں وہ تسلی سے سیدھا ہوکربیٹھا تو سحرشنے اس کو کھاجانے والی نظروں سے دیکھا جواس کو دیکھ کر ایک آنکھ دبا کر اب باہر دیکھ رہاتھا اچھا چلو صدف تم عبداللہ کے ساتھ بیٹھ جاو
میں یہاں تمھارے ساتھ بیٹھتی ہو ں وہ یہ کربیٹھنے لگی تو نے سیٹ پر ہاتھ رکھ دیا نہیں یہ جگہ ہادیہ کی وہ ڈرتی ہے پہاڑی سفر سے تو میں اس کے ساتھ ہی بیٹھو گا میں اسی شرط پر اس کو لایا ہو ں تم وہاں چلی جاو اس نے عبداللہ کے ساتھ والی جگہ پر جانے کابولا اگر وہ اتنا ڈرتی ہےتو نہ جاۓ پھر جانا کوٸی ضروری نہیں صدف اپنے اندر کی آگ پر قابو رکھے کر بولی اگر ہادیہ نہیں جاۓ گی تو کوٸی نہیں جاۓ گا یہ تو اٹل بات ہے ار کسی کو اعتراض ہے تو وہ بے شک چلا جاۓ علی دونوں ہاتھ کھڑے کرکے بولا نہٕیں اعتراض کی تو بات نہیں ہے وہ اصل میں میرے کہنےکامطلب تھا ابھی میں یہاں بیٹھ جاتی ہوں جب پہاڑی سلسہ شروع ہوگا وہ تمھارٕ ے ساتھ آجاۓ گی نہٕیں ایسے نہیں ہوسکتا یار میں پورے سفر میںاس ساتھ ہی رہنا چاہتا ہو یہ نہ وہ گھبرا جاۓ تم سمجھنے کی کوشش کرو اس بار بار سیٹ تبدیل کرنا اچھا نہیں لگتا علی اس کو سمجھاتے ہوۓ بولا ہادیہ کو آتا دیکھ کرمسکرایا اور اس کی طرف ہاتھ بڑھا کر اس کو گاڑی میں چڑھنے میں مدد کی جس کو صدف نے جلتی نگاہو سے دیکھا ایک دن آۓگا میں تمھیں علی سے اتنی دور کر دوگی علی تمھارٕے ساۓ سے بھی نفرت کرے گا ہادیہ ملک علی شاہ صرف میرا ہے اور جو میرا میں اس کوکسی بھی قمیت پر حاصل کر لوں گی یہ وعدہ ہے میرا اپنے آپ سے وہ اپنی سوچ پر مسکاٸی دیکھا تم نے کیسےجل گی اور اب کیسے کیمنی سی ہنسی ہنسں رہی ہے یہ چڑیل صدف حیدر نے سحرش کے کان میں سرگوشی کی تم بےہودہ انسان خاموش ہوکر رہو بڑا پتاہہے تمھیں کیمنی ہنسی کا اب اگر تم بولے تو میں تمھارا گلہ دبا دوں گی اور اس صد ف کوتو مٕیں دیکھ لوں گی ویسے گلا دبانے کے علاوہ ایک اور کام بھی ہوسکتا ہے گلے کا اگر تم چاہو تو وہ دیھمے سے بولا حیدر ررررر اب اگر تم نے کوٸی اور بکواس کی تو میں تمھیں گاڑی سے باہر پھینک دوں گی پھر تم رہنا یہاں اکیلے وہ اس کو آنکھیں دکھا کر بولی اس کو غصہ ہوتا دیکھ کر حیدر نے اپنی انگلی اپنے ہونٹوں پر رکھ لی جبکہ سحرش نے اس کو خاموش ہوتا دیکھ کر سکھ کا سانس لیا اور فون کو ہینڈ فری لگا کر خود فون پر لگ گی اگلی سیٹ پر سدرہ اور نور مگیزین میں بزی تھی ان کی ساتھ والی سیٹ پر عبداللہ سر سیٹ سے لگاۓ سونے کی تیاری پر تھا اس کے ساتھ بیٹھی صدف اگلی سیٹ پر بیٹھے علی اور ہادیہ کو کسی بات پر ہنستا دیکھ کر بدمزہ ہوٸی تھی جبکہ علی اور ہادیہ اس سب سے بے پرواہ اپنی بات ہنس رہے تھے علی نے مضبوطی سے ہادیہ سے ہاتھ تھام ہوا تھا اس کے لبوں پر جاندار مسکراہٹ تھی ۔ یہ رات کا تیسرا پہر تھا جب اس کی آنکھ کھولی اس کی نگاہ سامنے صوفے پر گی جہاں علی ترچھا ہوکر سورہا تھا اس کا ایک بازو نیچے لٹک رہاتھا دوسرا بازو اس کے سر کے نیچے تھا وہ بیڈ سے اٹھی اور دھیرے دھیرے چلتی ہوٸی اس کے پاس آٸی اس کا لٹکتا ہوا بازو اس کے سینے پر رکھنے لگی ت بے ساختہ اس کے چہرے کو تکنے لگی سویا ہوا وہ بہت معصوم لگ رہاتھا کچھ دنوں سے اس کے چہرے پر چھاۓ غصہ کا اس وقت نام ونشان نہیں تھا
علی تم ایسے تو کبھی نہیں تھے پہلے تو تمھیں میری کتنی فکر ہوتی تھی مجھے کوٸی تکلیف ہو تو ذرا برداشت نہیں ہوتا تھا تم سے اور اب کیا ہوگیا اب تم خود مجھے تکلیف دیتے ہوکیوں ہوگے تم ایسے کیا غلطی ہے میری مجھے تمھارا یہ رویہ برداشت نہیں ہوتا مجھے وہی میرا بیسٹ فرینڈ علی چاہیے پلیز اس کو مجھے لٹا دو پلیز علی پلیز
وہ اپنی آنکھیں صاف کرتی ہوٸی کمرے سے باہر چلی گی اس کے جاتے ہی علی نے جھٹ سے آنکھیں کھولی اور ایک لمبا سانس خارج کیا اسی وجہ سے روکتا تھا تمھیں کہ مت کرو یہ شادی پر تم نے سب مذاق سمجھا اور سب بربادکردیا اور مجھے میری بیسٹ فرینڈ چھین لی میں تمھیں کبھی معاف نہٕیں کروں گا کبھی بھی نہیں ہادیہ ملک
وہ کمرے سے نکل کر باہر لان میں آکر بیٹھ گی اور رونے لگی وہ کافی سے دیر سے باہرسردی میں بیٹھی تھی جب اس پر کسی نے شال ڈالی ہادیہ نےسراٹھا کر دیکھا تو نجف کھڑا تھا
بھاٸی آپ اس وقت کیارہے ہیں یہاں اس نے جھٹ سے اپنے آنسو صاف کیے
میں بیٹھو یہاں وہ اس کے والی کرسی کی طرف اشارہ کرکے بولا جی جی بھاٸی بیٹھیں وہ زبردستی مسکراٸی یہ تو میں بھی تم سے پوچھ سکتا یوں تم اس وقت یہاں کیا کررہی ہو جب کل تمھاری کتنی طبعیت خراب تھی سردی احتیاط کرنی چاہیے تھی تمھیں
وہ اس کے سامنے کرسی پر بیٹھ کر بولا بھاٸی وہ آج ٹاٸم سے پہلے سوگی تھی تو اب آنکھ کھول گی اور روم میں دم گھٹ رہ تھا تو تازہ ہوا کے لیے باہر آگی ہمممم صیح اور علی وہ کہاں ہے اس کو ساتھ ہونا چاہیے تھس تمھارے اور اب ہاتھ کیسا ہے تمھارا وہاس ک ہاتھ پکڑکردیکھنے لگا بھاٸی وہ کافی دیر سے سوۓتھے میں نےان کو اٹھنا مناسب نہیں سمجھا اور اب کافی فرق ہے ہاتھ کو وہ دھیرے سے بولی اور ادھر ادھر دیکھنے لگی پتا ہے کیایہ عادت مشرقی لڑکیوں کی اچھی ہے یہ کہ وہ شادی کے بعد اپنے مساٸل کسی کو نہیں بتاتی سسرال کامعاملہ سسرال میں رکھتی ہیں اور اس کو حل کرنے کی کوشش اپنے دم پر کرتی ہیں
مگر کچھ معاملے ایسے ہوتے ہیں جس کاعلم ان کے ماں باپ بھاٸی بہن یا کسی دوست کو ہونا چاہیے تاکہوہ ان کو کوٸی اچھا مشورہ یا ان کو سپورٹ کر سکے نجف نے اس کو دیکھتے ہوۓبولا میں سمجھی نہیں بھاٸی آپ کی بات وہ بولی اور اپنے ماتھے پر ہاتھ پھیرنے لگی ہادیہ تم کبھی بھی میرے لیے ساٸرہ مریم اور سدرہ سے الگ یا کم نہیں تھی نہ ہو اور نہ کبھی ہوسکتی ہو میں تمھارے ہر فیصلے میں تمھارے ساتھ ہوں تم کو مجھ سے کچھ چپھانے جی ضرورت نہیں میں سب جانتا ہوں جو علی نے تمھارے ساتھ کیا پہلے دن اور میں یہ بھی جانتا ہوں وہ بکواس کررہا ہے وہ کسی کو پسند نہٕیں کرتا اس کی زندگی میں نہ کوٸی لڑکی تھی نہ ہے وہ پورے اعتماد سے بولا مگر بھاٸی انہوں نے خود بولا تھا کسی کو میں نے سنا تھا وہ میں ہی تھا اس کے ساتھ تم نے شاید پور ی بات نہیں سنی اس کو بس اس شادی پر اعتراض تھا جسکی وجہ سے وہ یہ بول گیا جب کہ یہ بولتے ہوۓ اس کی آنکھیں اس کے جھوٹا ہونے کاچیخ چیخ کر اعلان کررہی تھی جو بھی بات ہے میں پتا لگا لوں گا تم فکر مت کرو بس ایک بات یاد رکھو اپنی جگہ کبھی بھی کسی کے لیے مت چھوڑنا اور اپنا حق لینا سیکھو اپنا حق مانگنے میں کو ٸی شرم کی بات نہیں اور اگر حق مانگنے سے نہ ملے تو اپنا حق چیھننا سکیھو تمھارا یہ بھا ٸی ہر قدم پر تمھارے ساتھ ہے اٹھو اب اندر جاو بہت سردی ہے وہ اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر بولا اور اپنا رو م کی اندر جانے لگا جبکہ ہادیہ جی بھاٸی بول کر محض سر ہلا کراٹھ کھڑی ہوٸی اوراس کے ساتھ اندر اپنے روم میں جانے لگی وہ دونوں اس بات سے بے خبرتھے ان دونوں کی باتیں کسی اور نےبھی بڑے غور سے سنی ہیں

   0
0 Comments